گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا

گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا
راتوں کو روتے روتے ہی جوں شمع گل گیا
ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج تر
تیوری چڑھائی تو نے کہ یاں جی نکل گیا
گرمی عشق مانع نشوونما ہوئی
میں وہ نہال تھا کہ اگا اور جل گیا
مستی میں چھوڑ دیر کو کعبے چلا تھا میں
لغزش بڑی ہوئی تھی ولیکن سنبھل گیا
ساقی نشے میں تجھ سے لنڈھا شیشۂ شراب
چل اب کہ دخت تاک کا جوبن تو ڈھل گیا
ہر ذرہ خاک تیری گلی کی ہے بے قرار
یاں کون سا ستم زدہ ماٹی میں رل گیا
عریاں تنی کی شوخی سے دیوانگی میں میرؔ
مجنوں کے دشت خار کا داماں بھی چل گیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *