فرق نکلا بہت جو باس کیا
دل نے ہم کو مثال آئینہ
ایک عالم کا روشناس کیا
کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اس بن
شوق نے ہم کو بے حواس کیا
عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے
قیس کی آبرو کا پاس کیا
دور سے چرخ کے نکل نہ سکے
ضعف نے ہم کو مور طاس کیا
صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا
تجھ سے کیا کیا توقعیں تھیں ہمیں
سو ترے ظلم نے نراس کیا
دیکھا ڈھہتا ہے جن نے خانہ بنا
زیر افلاک سست اساس کیا
ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
میرؔ کو تم عبث اداس کیا