گل گئے بوٹے گئے گلشن ہوئے برہم گئے

گل گئے بوٹے گئے گلشن ہوئے برہم گئے
کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے
ہنستے رہتے تھے جو اس گلزار میں شام و سحر
دیدۂ تر ساتھ لے وے لوگ جوں شبنم گئے
گر ہوا اس باغ کی ہے یہ تو اے بلبل نہ پھول
کوئی دن میں دیکھیو واں وے گئے یاں ہم گئے
کیا کم اس خورشید رو کی جستجو یاروں نے کی
لوہو روتے جوں شفق پورب گئے پچھم گئے
جی گیا یاں بے دماغی سے انھوں کی اور واں
نے جبیں سے چیں گئی نے ابروؤں سے خم گئے
شاید اب ٹکڑوں نے دل کے قصد آنکھوں کا کیا
کچھ سبب تو ہے جو آنسو آتے آتے تھم گئے
گرچہ ہستی سے عدم تک اک مسافت تھی بعید
پر اٹھے جو ہم یہاں سے واں تلک اک دم گئے
کیا معاش اس غم کدے میں ہم نے دس دن کی بہم
اٹھ کے جس کے ہاں گئے دل کا لیے ماتم گئے
سبزہ و گل خوش نشینی اس چمن کی جن کو تھی
سو بھی تو دیکھا گریباں چاک و مژگاں نم گئے
مردم دنیا بھی ہوتے ہیں سمجھ کس مرتبہ
آن بیٹھے ناؤں کو تو یاں نگیں سے جم گئے
ربط صاحب خانہ سے مطلق بہم پہنچا نہ میرؔ
مدتوں سے ہم حرم میں تھے پہ نامحرم گئے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *