گل منعکس ہوئے ہیں بہت آب جو کے بیچ

گل منعکس ہوئے ہیں بہت آب جو کے بیچ
جائے شراب پانی بھریں گے سبو کے بیچ
ستھراؤ کر دیا ہے تمنائے وصل نے
کیا کیا عزیز مر گئے اس آرزو کے بیچ
بحث آ پڑے جو لب سے تمھارے تو چپ رہو
کچھ بولنا نہیں تمھیں اس گفتگو کے بیچ
ہم ہیں قلندر آ کر اگر دل سے دم بھریں
عالم کا آئینہ ہے سیہ ایک ہو کے بیچ
گل کی تو بو سے غش نہیں آتا کسو کے تیں
ہے فرق میرؔ پھول کی اور اس کی بو کے بیچ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *