قدرت سے اس کے دل کی کل پھیر دے ادھر کو
بے طاقتی میں شب کی پوچھو نہ ضبط میرا
ہاتھوں میں دل کو رکھا دانتوں تلے جگر کو
پھولا پھلا نہ اب تک ہرگز درخت خواہش
برسوں ہوئے کہ دوں ہوں خون دل اس شجر کو
ہے روزگار میرا ایسا سیہ کہ یارو
مشکل ہے فرق کرنا ٹک شام سے سحر کو
ہرچند ہے سخن کو تشبیہ در سے لیکن
باتیں مری سنو تو تم پھینک دو گہر کو
نزدیک ہے کہ جاویں ہم آپ سے اب آؤ
ملتے ہیں دوستوں سے جاتے ہوئے سفر کو
کب میرؔ ابر ویسا برساوے کر اندھیری
جیسا کہ روتے ہم نے دیکھا ہے چشم تر کو