ہو چہرہ اس کے لب سے یاقوت ناب کیونکر
ہے شعر و شاعری گو کب سے شعار اپنا
حرف و سخن سے کریے اب اجتناب کیونکر
جوں ابر اگر نہ روویں وادی و کوہ پر ہم
تو شہروں شہروں آوے نہروں میں آب کیونکر
اب بھی نہیں ہے ہم کو اے عشق ناامیدی
دیکھیں خراب ہووے حال خراب کیونکر
اڑ اڑ کے جا لگے ہے وہ تیر مار کاکل
کھاتا رہے نہ افعی پھر پیچ تاب کیونکر
چشمے محیط سے جو ہووے نہ چشم تر کے
تو سیر ہو ہوا پر پھیلے سحاب کیونکر
اب تو طپش نے دل کی اودھم مچا رکھا ہے
تسکین پاوے دیکھوں یہ اضطراب کیونکر
رو چاہیے ہے اس کے در پر بھی بیٹھنے کو
ہم تو ذلیل اس کے ہوں میرؔ باب کیونکر