لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے

لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
نکلے نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے
برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے
روتا گیا ہے ہر اک جوں ابر میرے گھر سے
جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے
دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے
قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا
جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے اس خبر سے
سو بار ہم تو تم بن گھر چھوڑ چھوڑ نکلے
تم ایک بار یاں تک آئے نہ اپنے گھر سے
چھاتی کے جلنے سے ہی شاید کہ آگ سلگی
اٹھنے لگا دھواں اب میرے دل و جگر سے
نکلا سو سب جلا ہے نومید ہی چلا ہے
اپنا نہال خواہش برگ و گل و ثمر سے
جھڑ باندھنے کا ہم بھی دیں گے دکھا تماشا
ٹک ابر قبلہ آ کر آگے ہمارے برسے
سو نامہ بر کبوتر کر ذبح ان نے کھائے
خط چاک اڑے پھریں ہیں اس کی گلی میں پر سے
آخر گرسنہ چشم نظارہ ہو گئے ہم
ٹک دیکھنے کو اس کے برسوں مہینوں ترسے
اپنا وصول مطلب اور ہی کسی سے ہو گا
منزل پہنچ رہیں گے ہم ایسے رہگذر سے
سر دے دے مارتے ہیں ہجراں میں میرؔ صاحب
یارب چھڑا تو ان کو چاہت کے درد سر سے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *