پر ہے یہی ہمارے کیے کی سزا کہو
چپکے رہے بھی چین نہیں تب کہے ہے یوں
لب بستہ بیٹھے رہتے جو ہو مدعا کہو
پیغام بر تو یارو تمھیں میں کروں ولے
کیا جانوں جا کے حق میں مرے اس سے کیا کہو
اب نیک و بد پہ عشق میں مجھ کو نظر نہیں
اس میں مجھے برا کہو کوئی بھلا کہو
سر خاک آستاں پہ تمھاری رہا مدام
اس پر بھی یا نصیب جو تم بے وفا کہو
برسوں تلک تو گھر میں بلا گالیاں دیاں
اب در پہ سن کے کہنے لگے ہیں دعا کہو
صحبت ہماری اس کی جو ہے گفتنی نہیں
کیا کہیے گر کہے کوئی یہ ماجرا کہو
یارو خصوصیت تو رہے اپنی اس کے ساتھ
میرا کہو جو حال تو اس سے جدا کہو
آشفتہ مو حواس پریشاں خراب حال
دیکھو مجھے تو خبطی دوانہ سڑا کہو
کب شرح شوق ہوسکے پر تو بھی میرؔ جی
خط تم نے جو لکھا اسے کیا کیا لکھا کہو