رنج ویسے ہی ہیں نباہ کے بیچ
ذوق صید اس کو تھا تو خیل ملک
دھوم رکھتے تھے دام گاہ کے بیچ
کب مزہ ہے نماز صبح میں وہ
جو صبوحی کے ہے گناہ کے بیچ
اس غصیلے کی سرخ آنکھیں دیکھ
اٹھے آشوب خانقاہ کے بیچ
جان و دل دونوں کر گئے تھے غش
دیکھ اس رشک مہ کو راہ کے بیچ
اس کی چشم سیہ ہے وہ جس نے
کتنے جی مارے اک نگاہ کے بیچ
سانجھ ہی رہتی پھر اگر ہوتا
کچھ اثر نالۂ پگاہ کے بیچ
کیا رہیں جور سے بتوں کے ہم
رکھ لے اپنی خدا پناہ کے بیچ
منھ کی دو جھائیوں سے مت شرما
جھائیں ہوتی ہے روئے ماہ کے بیچ
میرؔ بیمار ہے کہ فرق نہیں
متصل اس کے آہ آہ کے بیچ