مت پوچھو کچھ اپنی باتیں کہیے تو تم کو ندامت ہو

مت پوچھو کچھ اپنی باتیں کہیے تو تم کو ندامت ہو
قد قامت یہ کچھ ہے تمھارا لیکن قہر قیامت ہو
ربط اخلاص اے دیدہ و دل بھی دنیا میں ایک سے ہوتا ہے
لگ پڑتے ہو جس سے تس سے تم بھی کوئی ملامت ہو
آج سحر ہوتے ہی کچھ خورشید ترے منھ آن چڑھا
روک سکے ہے کون اسے سر جس کے ایسی شامت ہو
چاہ کا دعویٰ سب کرتے ہیں مانیے کیونکر بے آثار
اشک کی سرخی زردی منھ کی عشق کی کچھ تو علامت ہو
سرو و گل اچھے ہیں دونوں رونق ہیں گلزار کی ایک
چاہیے رو اس کا سا رو ہو قامت ویسا قامت ہو
مل بیٹھے اس نائی کے سے کوئی گھڑی جو زاہد تو
جتنے بال ہیں سارے سر میں ویسی ہی اس کی حجامت ہو
ہو جو ارادہ یاں رہنے کا رہ سکیے تو رہیے آپ
ہم تو چلے جاتے ہیں ہر دم کس کو قصد اقامت ہو
کس مدت سے دوری میں تیری خاک رہ سے برابر ہوں
کریے رنجہ قدم ٹک مجھ تک جو کچھ پاس قدامت ہو
منھ پر اس کی تیغ ستم کے سیدھا جانا ٹھہرا ہے
جینا پھر کج دار و مریز اس طور میں ہو ٹک یا مت ہو
شور و شغب کو راتوں کے ہمسائے تمھارے کیا روویں
ایسے فتنے کتنے اٹھیں گے میرؔ جی تم جو سلامت ہو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *