ہو چکے حشر میں پھرتا ہوں جگر چاک ہنوز
اشک کی لغزش مستانہ پہ مت کیجو نظر
دامن دیدۂ گریاں ہے مرا پاک ہنوز
ایک بھی تار گریبان کفن بیچ نہیں
جم ہوئی بیٹھی ہے چھاتی پہ مری خاک ہنوز
بھر نظر دیکھنے پاتا نہیں میں نزع میں بھی
منھ کے تیں پھیرے ہی لیتا ہے وہ بیباک ہنوز
بعد مرنے کے بھی آرام نہیں میرؔ مجھے
اس کے کوچے میں ہے پامال مری خاک ہنوز