یہی سبب ہے جو کھائی ہے میں دوا کی قسم
کل ان نے تیغ رکھی درمیاں کہ قطع ہے اب
قسم جو بیچ میں آئی سو اس ادا کی قسم
حنا لگی ترے ہاتھوں سے میں گیا پیسا
جگر تمام ہے خوں مجھ کو تیرے پا کی قسم
فقیر ہونے نے سب اعتبار کھویا ہے
قسم جو کھاؤں تو کہتے ہیں کیا گدا کی قسم
قدم تلے ہی رہا اس کے یہ سر پر شور
جو کھایئے تو مرے طالع رسا کی قسم
سروں پہ ہاتھ کبھو تیغ پر کبھو اس کا
کچھ ایک قسم نہیں میرے آشنا کی قسم
جدال دیر کے رہبان سے کہاں تک میرؔ
اٹھو حرم کو چلو اب تمھیں خدا کی قسم