بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا
تسلی ہوا صبر سے کچھ میں تجھ بن
کبھی یہ قیامت طرحدار ہو گا
صبا موئے زلف اس کا ٹوٹے تو ڈر ہے
کہ اک وقت میں یہ سیہ مار ہو گا
مرا دانت ہے تیرے ہونٹوں پہ مت پوچھ
کہوں گا تو لڑنے کو تیار ہو گا
نہ خالی رہے گی مری جاگہ گر میں
نہ ہوں گا تو اندوہ بسیار ہو گا
یہ منصور کا خون ناحق کہ حق تھا
قیامت کو کس کس سے خوں دار ہو گا
عجب شیخ جی کی ہے شکل و شمائل
ملے گا تو صورت سے بیزار ہو گا
نہ رو عشق میں دشت گردی کو مجنوں
ابھی کیا ہوا ہے بہت خوار ہو گا
کھنچے عہد خط میں بھی دل تیری جانب
کبھو تو قیامت طرحدار ہو گا
زمیں گیر ہو عجز سے تو کہ اک دن
یہ دیوار کا سایہ دیوار ہو گا
نہ مر کر بھی چھوٹے گا اتنا رکے گا
ترے دام میں جو گرفتار ہو گا
نہ پوچھ اپنی مجلس میں ہے میرؔ بھی یاں
جو ہو گا تو جیسے گنہگار ہو گا