مدت پائے چنار رہے ہیں مدت گلخن تابی کی

مدت پائے چنار رہے ہیں مدت گلخن تابی کی
برسوں ہوئے ہیں گھر سے نکلے عشق نے خانہ خرابی کی
مشق نوشتن جن کی رسا ہے وے بھی چپ ہیں حیرت سے
نقل کروں میں خوبی خط کیا اس کے چہرے کتابی کی
وہ نہیں سنتا سچی بھی میری تین میں میں ہوں نہ تیرہ میں
گنتی میں کچھ ہوں تو میری قدر ہو حرف حسابی کی
دیر جوانی کچھ رہتی تو اس کی جفا کا اٹھتا مزہ
عمر نے میری گذر جانے میں ہائے دریغ شتابی کی
جام گلوں کے خزاں میں نگوں ہیں نکہت خوش بھی چمن سے گئی
مے شاید کہ تمام ہوئی ہے ہر غنچے کی گلابی کی
جیتے جاگتے اب تک تو ہیں لیکن جیسے مردہ ہیں
یعنی بے دم سست بہت ہیں حسرت سے بے خوابی کی
اچھی ہی ہے یہ جنس وفا یاں لیک نہ پائی ہم نے کہیں
داغ ہوئی ہے جان ہماری اس شے کی نایابی کی
جیب و دامن تر رہتے ہیں آٹھ پہر کے رونے سے
قدر نہیں ہے ہم کو ہرگز اپنے جامۂ آبی کی
ننگ خلق کیا ہے ہم کو آخر دست خالی نے
عالم میں اسباب کے ہے کیا شورش بے اسبابی کی
عشق میرؔ کسو سے اتنا اب تک ظاہر ہم پہ نہ تھا
حرف یار جو منھ سے نکلا ان نے بلا بیتابی کی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *