نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا
پیدا ہے کہ پنہاں تھی آتش نفسی میری
میں ضبط نہ کرتا تو سب شہر یہ جل جاتا
میں گریۂ خونیں کو روکے ہی رہا ورنہ
اک دم میں زمانے کا یاں رنگ بدل جاتا
بن پوچھے کرم سے وہ جو بخش نہ دیتا تو
پرسش میں ہماری ہی دن حشر کا ڈھل جاتا
استادہ جہاں میں تھا میدان محبت میں
واں رستم اگر آتا تو دیکھ کے ٹل جاتا
وہ سیر کا وادی کے مائل نہ ہوا ورنہ
آنکھوں کو غزالوں کی پاؤں تلے مل جاتا
بے تاب و تواں یوں میں کا ہے کو تلف ہوتا
یاقوتی ترے لب کی ملتی تو سنبھل جاتا
اس سیم بدن کو تھی کب تاب تعب اتنی
وہ چاندنی میں شب کی ہوتا تو پگھل جاتا
مارا گیا تب گذرا بوسے سے ترے لب کے
کیا میرؔ بھی لڑکا تھا باتوں میں بہل جاتا