مر گیا میں ملا نہ یار افسوس

مر گیا میں ملا نہ یار افسوس
آہ افسوس صد ہزار افسوس
ہم تو ملتے تھے جب اہا ہاہا
نہ رہا وو ہی روزگار افسوس
یوں گنواتا ہے دل کوئی مجھ کو
یہی آتا ہے بار بار افسوس
قتل کر تو ہمیں کرے گا خوشی
یہ توقع تھی تجھ سے یار افسوس
رخصت سیر باغ تک نہ ہوئی
یوں ہی جاتی رہی بہار افسوس
خوب بد عہد تو نہ مل لیکن
میرے تیرے تھا یہ قرار افسوس
خاک پر میرؔ تیری ہوتا ولے
نہ ہوا اتنا اقتدار افسوس
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *