مکث طالع دیکھ وہ ایدھر کو چل کر رہ گیا

مکث طالع دیکھ وہ ایدھر کو چل کر رہ گیا
رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا
خواب میں کل پاؤں اپنے دوست کے ملتا تھا میں
آنکھ دشمن کھل گئی سو ہاتھ مل کر رہ گیا
ہم تو تھے سرگرم پابوسی خدا نے خیر کی
نیمچہ کل خوش غلاف اس کا اگل کر رہ گیا
ہم بھی دنیا کی طلب میں سر کے بل ہوتے کھڑے
بارے اپنا پاؤں اس رہ میں بچل کر رہ گیا
کیا کہوں بیتابی شب سے کہ ناچار اس بغیر
دل مرے سینے میں دو دو ہاتھ اچھل کر رہ گیا
کیا ہمیں کو یار کے تیغے نے کھا کر دم لیا
ایسے بہتیروں کو یہ اژدر نگل کر رہ گیا
دو قدم ساتھ اس جفا جو کے چلا جاتا ہے جی
بوالہوس عیار تھا دیکھا نہ ٹل کر رہ گیا
آنکھ کچھ اپنی ہی اس کے سامنے ہوتی نہیں
جن نے وہ خونخوار سج دیکھی دہل کر رہ گیا
ایک ڈھیری راکھ کی تھی صبح جائے میرؔ پر
برسوں سے جلتا تھا شاید رات جل کر رہ گیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *