لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے
پانی کی سی بوندیں تھیں سب اشک نہ میں جانا
کپڑوں پہ گریں گے تو وے آگ جلا دیں گے
سرگشتہ سا پھرتا ہے کہتے ہیں بیاباں میں
گر خضر ملے گا تو ہم راہ بتا دیں گے
اے کاش قیامت میں دیویں اسے عاشق کو
گر حسن عمل کی واں لوگوں کو جزا دیں گے
حاصل کڑی ہونے کا ابرو کی کمان اس کی
دیکھیں گے چڑھی جس دم ہم سر کو نوا دیں گے
ایدھر نہیں آتا وہ آوے تو تصدق کر
جی جامہ اٹھا دیں گے گھر بار لٹا دیں گے
معشوقوں کی گرمی بھی اے میرؔ قیامت ہے
چھاتی میں گلے لگ کر ٹک آگ لگا دیں گے