تم تو کرو ہو صاحبی بندے میں کچھ رہا نہیں
بوئے گل اور رنگ گل دونوں ہیں دلکش اے نسیم
لیک بقدر یک نگاہ دیکھیے تو وفا نہیں
شکوہ کروں ہوں بخت کا اتنے غضب نہ ہو بتاں
مجھ کو خدا نخواستہ تم سے تو کچھ گلہ نہیں
نالے کیا نہ کر سنا نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے میں نے تجھے کہا نہیں
خواب خوش سحر سے شوخ تجھ کو صبا جگا گئی
مجھ پہ عبث ہے بے دماغ میں نے تو کچھ کہا نہیں
چشم سفید و اشک سرخ آہ دل حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے مے نہیں ابر نہیں ہوا نہیں
ایک فقط ہے سادگی تس پہ بلائے جاں ہے تو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں آن نہیں ادا نہیں
آب و ہوائے ملک عشق تجربہ کی ہے میں بہت
کر کے دوائے درد دل کوئی بھی پھر جیا نہیں
ہووے زمانہ کچھ سے کچھ چھوٹے ہے دل لگا مرا
شوخ کسی ہی آن میں تجھ سے تو میں جدا نہیں
ناز بتاں اٹھا چکا دیر کو میرؔ ترک کر
کعبے میں جا کے بیٹھ میاں تیرے مگر خدا نہیں