پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا
اے ابر تر یہ گریہ ہمارا ہے دیدنی
برسے ہے آج صبح سے چشم پر آب کیا
دم گنتے گنتے اپنی کوئی جان کیوں نہ دو
وہ پاس آن بیٹھے کسو کے حساب کیا
سو بار اس کے کوچے تلک جاتے ہیں چلے
دل ہے اگر بجا تو یہ ہے اضطراب کیا
بس اب نہ منھ کھلاؤ ہمارا ڈھکے رہو
محشر کو ہم سوال کریں تو جواب کیا
دوزخ سو عاشقوں کو تو دوزخ نہیں رہا
اب واں گئے پہ ٹھہرے ہے دیکھیں عذاب کیا
ہم جل کے ایک راکھ کی ڈھیری بھی ہو گئے
ہے اب تکلف آگے جلے گا کباب کیا
ہستی ہے اپنے طور پہ جوں بحر جوش میں
گرداب کیسا موج کہاں ہے حباب کیا
دیکھا پلک اٹھا کے تو پایا نہ کچھ اثر
اے عمر برق جلوہ گئی تو شتاب کیا
ہر چند میرؔ بستی کے لوگوں سے ہے نفور
پر ہائے آدمی ہے وہ خانہ خراب کیا