موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو

موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو
یعنی سایۂ سرو و گل میں اب مجھ کو زنجیر کرو
پیش سعایت کیا جائے ہے حق ہے میری طرف سو ہے
میں تو چپ بیٹھا ہوں یکسو گر کوئی تقریر کرو
کان لگا رہتا ہے غیر اس شوخ کماں ابرو کے بہت
اس تو گناہ عظیم پہ یارو ناک میں اس کی تیر کرو
پھیر دیے ہیں دل لوگوں کے مالک نے کچھ میری طرف
تم بھی ٹک اے آہ و نالہ قلبوں میں تاثیر کرو
آگے ہی آزردہ ہیں ہم دل ہیں شکستہ ہمارے سب
حرف رنجش بیچ میں لا کر اور نہ اب دلگیر کرو
کیا ہو محو عمارت منعم اے معمار خرابی ہے
بن آوے تو گھر ویراں درویشوں کے تعمیر کرو
عاشق ہو ترسا بچگاں پر تا کیفیت حاصل ہو
اور کشود کار جو چاہو پیر مغاں کو پیر کرو
شعر کیے موزوں تو ایسے جن سے خوش ہیں صاحب دل
روویں کڑھیں جو یاد کریں اب ایسا تم کچھ میرؔ کرو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *