میں آگے نہ تھا دیدۂ پر آب سے واقف

میں آگے نہ تھا دیدۂ پر آب سے واقف
پلکیں نہ ہوئی تھیں مری خوناب سے واقف
پتھر تو بہت لڑکوں کے کھائے ہیں ولیکن
ہم اب بھی جنوں کے نہیں آداب سے واقف
ہم ننگ خلائق یہ عجب ہے کہ نہیں ہیں
اس عالم اسباب میں اسباب سے واقف
شب آنکھیں کھلی رہتی ہیں ہم منتظروں کی
جوں دیدۂ انجم نہیں ہیں خواب سے واقف
بل کھائے انھیں بالوں کو ہم جانیں ہیں یا میرؔ
ہیں پیچ و غم و رنج و تب و تاب سے واقف
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *