رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد
ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دل ناشاد
موند آنکھیں سفر عدم کا کر
بس ہے دیکھا نہ عالم ایجاد
فکر تعمیر میں نہ رہ منعم
زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابے میں ہم ہوئے آباد
سنتے ہو ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد
نہ سنو گے یہ نالہ و فریاد
لگتی ہے کچھ سموم سی تو نسیم
خاک کس دل جلے کی دی برباد
بھولا جا ہے غم بتاں میں جی
غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد
تیرے قید قفس کا کیا شکوہ
نالے اپنے سے اپنے سے فریاد
ہر طرف ہیں اسیر ہم آواز
باغ ہے گھر ترا تو اے صیاد
ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں کہیں
اپنی قید حیات سے آزاد
ایسا وہ شوخ ہے کہ اٹھتے صبح
جانا سو جائے اس کی ہے معتاد
نہیں صورت پذیر نقش اس کا
یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد
خوب ہے خاک سے بزرگوں کی
چاہنا تو مرے تئیں امداد
پر مروت کہاں کی ہے اے میرؔ
تو ہی مجھ دل جلے کو کر ارشاد
نامرادی ہو جس پہ پروانہ
وہ جلاتا پھرے چراغ مراد