دیتا ہے جان عالم اس کی جفا کے اوپر
کشتہ ہوں اس حیا کا کٹوائے بہتوں کے سر
پر آنکھیں اس کی وونہیں تھیں پشت پا کے اوپر
مہندی لگا کے ہرگز گھر سے تو مت نکلیو
ہوتے ہیں خون تیرے رنگ حنا کے اوپر
ہوں کو بہ کو صبا سا پر کچھ نہیں ہے حاصل
شاید برات اپنی لکھی ہوا کے اوپر
بندوں سے کام تیرا اے میرؔ کچھ نہ نکلا
موقوف مطلب اپنا اب رکھ خدا کے اوپر