سفک دم میں میرے اب کیا دیر ہے
خضر دشت عشق میں مت جا کہ واں
ہر قدم مخدوم خوف شیر ہے
راہ تک تک کر ہوئے ہیں جاں بہ لب
پر وہی اب تک بھی یاں اوسیر ہے
جو گرسنہ دل تھا اس دیدار کا
اپنے جینے ہی سے وہ اب سیر ہے
کچھ نہیں جاں ان کے پیش تار مو
گھر میں شمعی رنگوں کے اندھیر ہے
پاک ہی ہوتی رہی کشتی خلق
ہر زبردست اس جواں کا زیر ہے
طائروں نے گل فشاں کی میری گور
سامنے پھولوں کا گویا ڈھیر ہے
آشنا ڈوبے بہت اس دور میں
گرچہ جامہ یار کا کم گھیر ہے
آنچل اس دامن کا ہاتھ آتا نہیں
میرؔ دریا کا سا اس کا پھیر ہے