ناز و ادا کے ساتھ وہ دلبر شکیل ہے

ناز و ادا کے ساتھ وہ دلبر شکیل ہے
تصویر چیں کی روبرو اس کے ذلیل ہے
ہم خاک منھ کو مل کے نہ جوں آرسی پھرے
یاں پاس قرط آب اگر ہے سبیل ہے
جنگل میں خضرؑ و کعبہ کا ہونا مری طرح
دونوں کی نارسائی کے اوپر دلیل ہے
آگے جنوں سے چھاؤں میں تھے سرو و گل کی ہم
سر پر ہمارے سایہ فگن اب کریل ہے
کچھ چیز و مال ہو تو خریدار ہو کوئی
دنیا کی قدر کیا کہ متاع قلیل ہے
کیا روؤں اشک آتے ہیں آنکھوں سے سیل سیل
پل مارنے میں پیش نظر ایک جھیل ہے
آتے نہیں نظر میں مری ہاتھی کے سوار
کانوں میں جو فسانۂ اصحاب فیل ہے
ہو صبر اس جو یوسف ثانی کے بے جمال
تو مصحف مجید میں صبر جمیل ہے
شکر و گلہ سے عشق کے لبریز ہے جہاں
کریے جہاں نگاہ یہی قال و قیل ہے
ہم دیر سے ہیں منتظر قد کشی یار
کچھ شامت عمل سے قیامت میں ڈھیل ہے
جب دیکھتے ہیں میرؔ تمھیں بے دماغ ہو
کاہے کو ناز عشق میں صاحب دخیل ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *