ناگہ جو وہ صنم ستم ایجاد آ گیا

ناگہ جو وہ صنم ستم ایجاد آ گیا
دیکھے سے طور اس کے خدا یاد آ گیا
پھوڑا تھا سر تو ہم نے بھی پر اس کو کیا کریں
جو چشم روزگار میں فرہاد آ گیا
اپنا بھی قصد تھا سردیوار باغ کا
توڑا ہی تھا قفس کو پہ صیاد آ گیا
جور و ستم اٹھانے ہی اس سے بنیں گے شیخ
مسجد میں گر وہ عاشق بیداد آ گیا
دیکھیں گے آدمی کی روش میرؔ ہم تری
گر سامنے سے ٹک وہ پری زاد آ گیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *