نالہ تا آسمان جاتا ہے

نالہ تا آسمان جاتا ہے
شور سے جیسے بان جاتا ہے
دل عجب جائے ہے ولیکن مفت
ہاتھ سے یہ مکان جاتا ہے
گاہے آتا ہوں آپ میں سو بھی
جیسے کوئی میہمان جاتا ہے
کیا خرابی ہے میکدے کی سہل
محتسب اک جہان جاتا ہے
جب سرراہ آوے ہے وہ شوخ
ایک عالم کا جان جاتا ہے
اس سخن ناشنو سے کیا کہیے
غیر کی بات مان جاتا ہے
عشق کے داغ کا عبث ہے علاج
کوئی اب یہ نشان جاتا ہے
گو وہ ہرجائی آئے اپنی اور
سو طرف ہی گمان جاتا ہے
میرؔ تو عمر طبعی کو پہنچا
عشق میں جوں جوان جاتا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *