نظر آیا تھا صبح دور سے وہ

نظر آیا تھا صبح دور سے وہ
پھر چھپا خور سا اپنے نور سے وہ
جز برادر عزیز یوسف کو
نہیں لکھتا کبھو غرور سے وہ
دیکھیں عاشق کا جی بھی ہے کہ نہیں
تنگ ہے جان ناصبور سے وہ
کیا تصور میں پھیرے ہے صورت
کہ سرکتا نہیں حضور سے وہ
خوبی اس خوبی سے بشر میں کہاں
خوب تر ہے پری و حور سے وہ
دل لیا جس غمیں کا تو نے شوخ
دے گیا جی ہی اک سرور سے وہ
ـخوش ہیں دیوانگی میرؔ سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *