کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہائے حرماں کو
زبان نوحہ گر ہوں میں قضا نے کیا ملایا تھا
مری طینت میں یارب سودۂ دل ہائے نالاں کو
کوئی کانٹا سررہ کا ہماری خاک پر بس ہے
گل گلزار کیا درکار ہے گور غریباں کو
یہ کیا جانوں ہوا سینے میں کیا اس دل کو اب ناصح
سحر خوں بستہ تو دیکھا تھا میں نے اپنی مژگاں کو
گل و سنبل ہیں نیرنگ قضا مت سرسری گذرے
کہ بگڑے زلف و رخ کیا کیا بناتے اس گلستاں کو
صدائے آہ جیسے تیر جی کے پار ہوتی ہے
کسو بیدرد نے کھینچا کسو کے دل سے پیکاں کو
کریں بال ملک فرش رہ اس ساعت کہ محشر میں
لہو ڈوبا کفن لاویں شہید ناز خوباں کو
کیا سیر اس خرابے کا بہت اب چل کے سو رہیے
کسو دیوار کے سائے میں منھ پر لے کے داماں کو
بہائے سہل پر دیتے ہیں کس محبوب کو کف سے
قلم اس جرم پر کرنا ہے دست گل فروشاں کو
تری ہی جستجو میں گم ہوا ہے کہہ کہاں کھویا
جگر خوں گشتہ دل آزردہ میرؔ اس خانہ ویراں کو