ترا اے برق خاطف اس طرف گرنا ہے لاحاصل
سکندر ہو کے مالک سات اقلیموں کا آخر کو
گیا دست تہی لے یاں سے یہ کچھ کر گیا حاصل
بلا قحط مروت ہے کہ ہے محصول غلے پر
کہیں سے چار دانے لاؤ لیویں جا بجا حاصل
نہ کھینچیں کیونکے نقصاں ہم تو قیدی ہیں تعین کے
خودی سے کوئی نکلے تو اسے ہووے خدا حاصل
عبارت خوب لکھی شاعری انشا طرازی کی
ولے مطلب ہے گم دیکھیں تو کب ہو مدعا حاصل
بہت مصروف کشت و کار تھے مزرع میں دنیا کے
اٹھا حسرت سے ہاتھ آخر ہمیں یہ کچھ ہوا حاصل
پھرا مت میرؔ سر اپنا گراں گوشوں کی مجلس میں
سنے کوئی تو کچھ کہیے بھی اس کہنے کا کیا حاصل