گہر پہنچا بہم آب بقا میں
غریبانہ کوئی شب روز کر یاں
ہمیشہ کون رہتا ہے سرا میں
اٹھاتے ہاتھ کیوں نومید ہو کر
اگر پاتے اثر کچھ ہم دعا میں
کہے ہے ہر کوئی اللہ میرا
عجب نسبت ہے بندے میں خدا میں
کفن میں ہی نہ پہنا وہ بدن دیکھ
کھنچے لوہو میں بہتیروں کے جامیں
ادھر جانے کو آندھی تو ہے لیکن
سبک پائی سی ہے باد صبا میں
بلا تہ دار بحر عشق نکلا
نہ ہم نے انتہا لی ابتدا میں
ملے برسوں وہی بیگانہ ہے وہ
ہنر ہے یہ ہمارے آشنا میں
اگرچہ خشک ہیں جیسے پر کاہ
اڑے ہیں میرؔ جی لیکن ہوا میں