نہیں وہ قید الفت میں گرفتاری کو کیا جانے

نہیں وہ قید الفت میں گرفتاری کو کیا جانے
تکلف برطرف بے مہر ہے یاری کو کیا جانے
وہی اک مندرس نالہ مبارک مرغ گلشن کو
وہ اس ترکیب نو کی نالہ و زاری کو کیا جانے
پڑے آسودگان خاک چونکو شور محشر سے
مرا جو کوئی بے خود ہے وہ ہشیاری کو کیا جانے
ستم ہے تیری خوے خشمگیں پر ٹک بھی دلجوئی
دل آزاری کی باتیں کر تو دلداری کو کیا جانے
گلہ اپنی جفا کا سن کے مت آزردہ ہو ظالم
نہیں تہمت ہے تجھ پر تو جفا کاری کو کیا جانے
پریشاں فوج فوج لخت دل نکلے ہے آنکھوں سے
نپٹ ناداں ہے
ترا ابرام اس کی سادگی پر میرؔ میں مانا
بھلا ایسا جو ناداں ہو وہ عیاری کو کیا جانے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *