ہر زماں ملتے تھے باہم سو زمانہ ہو گیا
واں تعلل ہی تجھے کرتے گئے شام و سحر
یاں ترے مشتاق کا مرنا بہانہ ہو گیا
شیب میں بھی ہے لباس جسم کا ظاہر قماش
پر اسے اب چھوڑیے جامہ پرانا ہو گیا
کہنے تو کہہ بیٹھے مہ بہتر ہے روئے یار سے
شہر میں پھر ہم کو مشکل منھ دکھانا ہو گیا
صد سخن آئے تھے لب تک پر نہ کہنے پائے ایک
ناگہاں اس کی گلی سے اپنا جانا ہو گیا
رہنے کے قابل تو ہرگز تھی نہ یہ عبرت سرائے
اتفاقاً اس طرف اپنا بھی آنا ہو گیا
سینکڑوں افسوں دنوں کو پڑھتے تھے تس پر بھی میرؔ
بیٹھنا راتوں کو باہم اب فسانہ ہو گیا