ہجر تا چند ہم اب وصل طلب کرتے ہیں

ہجر تا چند ہم اب وصل طلب کرتے ہیں
لگ گیا ڈھب تو اسی شوخ سے ڈھب کرتے ہیں
روز اک ظلم نیا کرتے ہیں یہ دلبر اور
روز کہتے ہیں ستم ترک ہم اب کرتے ہیں
لاگ ہے جی کے تئیں اپنے اسی یار سے ایک
اور سب یاروں کا ہم لوگ تو سب کرتے ہیں
تم کبھو میرؔ کو چاہو سو کہ چاہیں ہیں تمھیں
اور ہم لوگ تو سب ان کا ادب کرتے ہیں
ہوں جو بے حال اس اعجوبۂ عالم کے لیے
حال سن سن کے مرا لوگ عجب کرتے ہیں
میرؔ سے بحث یہ تھی کچھ جو نہ تھے حرف شناس
اب سخن کرتے ہیں کوئی تو غضب کرتے ہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *