اچھے ہوتے نہیں جگر خستے
ہنستے کھینچا نہ کیجیے تلوار
ہم نہ مر جائیں ہنستے ہی ہنستے
شوق لکھنے قلم جو ہاتھ آئی
لکھے کاغذ کے دستے کے دستے
سیر قابل ہیں تنگ پوش اب کے
کہنیاں پھٹتے چولیاں چستے
رنگ لیتی ہے سب ہوا اس کا
اس سے باغ و بہار ہیں رستے
اک نگہ کر کے ان نے مول لیا
بک گئے آہ ہم بھی کیا سستے
میرؔ جنگل پڑے ہیں آج جہاں
لوگ کیا کیا نہیں تھے کل بستے