رہ سکے ہے تو تو رہ یاں ہم چلے
ٹوٹے جوں لالہ ستاں سے ایک پھول
ہم لے یاں سے داغ یک عالم چلے
جبنش ابرو تو واں رہتی نہیں
کب تلک تلوار یاں ہر دم چلے
نم جگر کے آیا آخر ہو گئے
اشک خونیں کچھ مژہ پر جم چلے
دیکھیے بخت زبوں کیا کیا دکھائے
تم تو خوباں ہم سے ہو برہم چلے
بھاگنے پر بیٹھے تھے گویا غزال
تیری آنکھیں دیکھتے ہی رم چلے
مجھ سے ناشائستہ کیا دیکھا کہ میرؔ
آتے آتے کچھ جو آنسو تھم چلے