گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں
خاک میں لوٹتے تھے کل تجھ بن
آج لوہو میں ہم نہاتے ہیں
اے عدم ہونے والو تم تو چلو
ہم بھی اب کوئی دم میں آتے ہیں
ایک کہتا ہوں میں تو منھ پہ رقیب
تیری پشتی سے سو سناتے ہیں
دیدہ و دل کا کیا کیا تھا میں
روز آفت جو مجھ پہ لاتے ہیں
کوئی رووے ہے کوئی تڑپے ہے
کیا کروں میرے گھر سے آتے ہیں
ورنہ میں میرؔ ہوں مرے آگے
دشت غم بھی نہ ٹکنے پاتے ہیں
کھود گاڑوں زمیں میں دونوں کو
گرچہ یہ آسماں پہ جاتے ہیں
دیدہ و دل شتاب گم ہوں میرؔ
سر پہ آفت ہمیشہ لاتے ہیں