صبح کی باؤ سے لگ لگنے نہ دیتی گل کو
میں نے سر اپنا دھنا تھا تبھی اس شوخ نے جب
پگڑی کے پیچ سے باندھا تھا اٹھا کاکل کو
مستی ان آنکھوں سے نکلے ہے اگر دیکھو خوب
خلق بدنام عبث کرتی ہے جام مل کو
جیسے ہوتی ہے کتاب ایک ورق بن ناقص
نسبت تام اسی طور ہے جز سے کل کو
ایک لحظے ہی میں بل سارے نکل جاتے میرؔ
پیچ اس زلف کے دینے تھے دکھا سنبل کو