ہوتی نہیں تسلی دل گلستاں سے بھی

ہوتی نہیں تسلی دل گلستاں سے بھی
تسکیں نہیں ہے جان کو آب رواں سے بھی
تا یہ گرفتہ وا ہو کہاں لے کے جائیے
آئے ہیں اس کی غنچگی میں تنگ جاں سے بھی
آگے تھی شوخی ہم سے کنایوں میں چپ تھے ہم
مشکل ہے اب برا لگے کہنے زباں سے بھی
ہر چند دست بیع جواناں ہوں میں ولے
اک اعتقاد رکھتا ہوں پیر مغاں سے بھی
جھنجھلاہٹ اور غصے میں ہجران یار کے
جھگڑا ہمیں رہے ہے زمیں آسماں سے بھی
دنیا سے درگذر کہ گذر گہ عجب ہے یہ
درپیش یعنی میرؔ ہے جانا جہاں سے بھی
لشکر میں ہے مبیت اسی بات کے لیے
کہتے ہیں لوگ کوچ ہے کل صبح یاں سے بھی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *