ہوں تو دریا پر کیا ترک خروش

ہوں تو دریا پر کیا ترک خروش
دل کے دل ہی میں کھپائے اپنے جوش
مست رہتے ہیں ہم اپنے حال میں
عرض کریے حال پر یہ کس کے گوش
عاقبت تجھ کو لباس راہ راہ
لے گیا ہے راہ سے اے تنگ پوش
ہو نہ آگے میرے جوں سوسن زباں
ہوسکے تو گل کے رنگوں رہیے گوش
میرؔ کو طفلان تہ بازار میں
دیکھو شاید ہو وہیں وہ دل فروش
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *