اڑتی ہے خاک میری باد صبا ہے شاہد
طوف حرم میں بھی میں بھولا نہ تجھ کو اے بت
آتا ہے یاد تو ہی میرا خدا ہے شاہد
شرمندۂ اثر کچھ باطن مرا نہیں ہے
وقت سحر ہے شاہد دست دعا ہے شاہد
نالے میں اپنے پنہاں میں بھی ہوں ساتھ تیرے
شاہد ہے گرد محمل شور درا ہے شاہد
ایذا ہے میرؔ پر جو وہ تو کہوں ہی گا میں
بارے یہ کہہ کہ تیری خاطر میں کیا ہے شاہد