ہے تماشا حسن و خط حیرت بھی ہے

ہے تماشا حسن و خط حیرت بھی ہے
یعنی خط تو خوب ہے صورت بھی ہے
تا دم آخر نہیں بولے ہیں ہم
کچھ کہیں گے بارے اب رخصت بھی ہے
ہے وہ فتنہ ہم حریف و ہم ظریف
مار ہے گالی ہے پھر منت بھی ہے
تیغ نے اس کی ہمیں قسمت کیا
خوش نصیبی ہے تو پر قسمت بھی ہے
وا نسیم صبح سے ہوتا ہے گل
تجھ کو اے مرغ چمن غیرت بھی ہے
جی ہی دینے کا نہیں کڑھنا فقط
اس کے در سے جانے کی حسرت بھی ہے
دور سے باتیں کرے ہے یوں ہی یار
میرؔ صاحب سے انھیں صحبت بھی ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *