ہے خاک جیسے ریگ رواں سب نہ آب ہے

ہے خاک جیسے ریگ رواں سب نہ آب ہے
دریائے موج خیز جہاں کا سراب ہے
روز شمار میں بھی محاسب ہے گر کوئی
تو بے حساب کچھ نہ کر آخر حساب ہے
اس شہر دل کو تو بھی جو دیکھے تو اب کہے
کیا جانیے کہ بستی یہ کب کی خراب ہے
منھ پر لیے نقاب تو اے ماہ کیا چھپے
آشوب شہر حسن ترا آفتاب ہے
کس رشک گل کی باغ میں زلف سیہ کھلی
موج ہوا میں آج نپٹ پیچ و تاب ہے
کیا دل مجھے بہشت میں لے جائے گا بھلا
جس کے سبب یہ جان پہ میری عذاب ہے
سن کان کھول کر کہ تنک جلد آنکھ کھول
غافل یہ زندگانی فسانہ ہے خواب ہے
رہ آشنائے لطف حقیقت کے بحر کا
ہے رشک زلف و چشم جو موج حباب ہے
آتش ہے سوز سینہ ہمارا مگر کہ میرؔ
نامے سے عاشقوں کے کبوتر کباب ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *