پیدا ہے عشق کشتے کا اس کے نشاں ہنوز
گردش سے اس کی خاک برابر ہوئی ہے خلق
استادہ روئے خاک پہ ہے آسماں ہنوز
اس تک پہنچنے کا تو نہیں حال کچھ ولے
جاتے ہیں گرتے پڑتے بھی ہم ناتواں ہنوز
پروانہ جل کے خاک ہوا پھر اڑا کیا
اے شمع تیری رہتی نہیں ہے زباں ہنوز
چندیں ہزار جانیں گئیں اس کی راہ میں
ایک آدھ تو بھی مر رہے ہیں نیم جاں ہنوز
مدت ہوئی کہ خوار ہو گلیوں میں مر گئے
قصہ ہمارے عشق کا ہے داستاں ہنوز
لخت جگر کے غم میں کہ تھا لعل پارہ میرؔ
رخسار زرد پر ہے مرے خوں رواں ہنوز