وحشت میں ہوں بلا گر وادی پر اپنی آؤں

وحشت میں ہوں بلا گر وادی پر اپنی آؤں
مجنوں کی محنتیں سب میں خاک میں ملاؤں
ہنس کر کبھو بلایا تو برسوں تک رلایا
اس کی ستم ظریفی کس کے تئیں دکھاؤں
فریادی ہوں تو ٹپکے لوہو مری زباں سے
نالے کو بلبلوں کے خاطر میں بھی نہ لاؤں
پوچھو نہ دل کے غم کو ایسا نہ ہووے یاراں
مانند روضہ خواں کے مجلس کے تیں رلاؤں
لگتی ہے آگ تن میں دیکھے سے داغ اس کے
اس دل جلے ہوئے پہ کتنا ہی جی جلاؤں
اک دم تو چونک بھی پڑ شور و فغاں سے میرے
اے بخت خفتہ کب تک تیرے تئیں جگاؤں
از خویش رفتہ ہر دم فکر وصال میں ہوں
کتنا میں کھویا جاؤں یارب کہ تجھ کو پاؤں
عریاں تنی کی شوخی وحشت میں کیا بلا تھی
تہ گرد کی نہ بیٹھی تا تن کے تیں چھپاؤں
اگلے خطوں نے میرے مطلق اثر نہ بخشا
قاصد کے بدلے اب کے جادو مگر چلاؤں
دل تفتگی نے مارا مجھ کو کہاں مژہ دے
اک قطرہ آب تا میں اس آگ کو بجھاؤں
آسودگی تو معلوم اے میرؔ جیتے جی یاں
آرام تب ہی پاؤں جب جی سے ہاتھ اٹھاؤں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *