وفا تھی مہر تھی اخلاص تھا تلطف تھا

وفا تھی مہر تھی اخلاص تھا تلطف تھا
کبھو مزاج میں اس کے ہمیں تصرف تھا
جو خوب دیکھو تو ساری وہی حقیقت ہے
چھپانا چہرے کا عشاق سے تکلف تھا
اسیر عشق نہیں باز خواہ خوں رکھتے
ہمارے قتل میں اس کو عبث توقف تھا
نہ پوچھو خوب ہے بد عہدیوں کی مشق اس کو
ہزاروں عہد کیے پر وہی تخلف تھا
جہاں میں میرؔ سے کاہے کو ہوتے ہیں پیدا
سنا یہ واقعہ جن نے اسے تاسف تھا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *