وہ جو کشش تھی اس کی طرف سے کہاں ہے اب

وہ جو کشش تھی اس کی طرف سے کہاں ہے اب
تیر و کماں ہے ہاتھ میں سینہ نشاں ہے اب
اتنا بھی منھ چھپانا خط آئے پہ وجہ کیا
لڑکا نہیں ہے نام خدا تو جواں ہے اب
پھول اس چمن کے دیکھتے کیا کیا جھڑے ہیں ہائے
سیل بہار آنکھوں سے میری رواں ہے اب
جن و ملک زمین و فلک سب نکل گئے
بار گران عشق و دل ناتواں ہے اب
نکلی تھی اس کی تیغ ہوئے خوش نصیب لوگ
گردن جھکائی میں تو سنا یہ اماں ہے اب
زردی رنگ ہے غم پوشیدہ پر دلیل
دل میں جو کچھ ہے منھ سے ہمارے عیاں ہے اب
پیش از دم سحر مرا رونا لہو کا دیکھ
پھولے ہے جیسے سانجھ وہی یاں سماں ہے اب
نالاں ہوئی کہ یاد ہمیں سب کو دے گئی
گلشن میں عندلیب ہماری زباں ہے اب
برسوں ہوئے گئے اسے پر بھولتا نہیں
یادش بخیر میرؔ رہے خوش جہاں ہے اب
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *