نرمی بھی کاش دیتا خالق ٹک اس کی خو کو
ان گیسوؤں کے حلقے ہیں چشم شوق عاشق
وے آنکھیں دیکھتی ہیں حسرت سے اس کے رو کو
دم کی کشش سے کوشش معلوم تو ہے لیکن
پاتے نہیں ہم اس کی کچھ طرز جستجو کو
آلودہ خون دل سے صد حرف منھ پر آئے
مرغ چمن نہ سمجھا انداز گفتگو کو
دل میرؔ دلبروں سے چاہا کرے ہے کیا کیا
کچھ انتہا نہیں ہے عاشق کی آرزو کو