یعنی ضائع اپنے تئیں کرتے ہیں اس بن کیا کیا لوگ
جیسے غم ہجراں میں اس کے عاشق جی کھو بیٹھے ہیں
برسوں مارے چرخ فلک تو ایسے ہوویں پیدا لوگ
زلف و خال و خط سے اس کے جہاں تہاں اب مبحث ہے
عقل ہوئی ہے گم خلقت کی یا کہتے ہیں سودا لوگ
چار قدم چلنے میں اس کے دیکھتے جاتے ہیں جو کفک
فتنے سر کھینچا ہی کریں ہیں ایک قیامت برپا لوگ
دنیا جائے نہیں رہنے کی میرؔ غرور نہیں اچھا
جو جاگہ سے جاتے ہیں اپنی وے کرتے ہیں بے جا لوگ